ساری دنیا پاگل کیا یہ ہی محبت ہے!
بگڑے دیور کی کہانی اعصاب پر قابو نہیں!
مرجاؤں گا ‘انڈیا ضرور جاؤںگا ذہنی مریض کی بات نہ مانیں!
یا تو میں خود پاگل ہوں یاساری دنیا پاگل
بھی کبھی میں خود کو پاگل سمجھنا شروع کردیتی ہوں اور کبھی ساری دنیا پاگل لگتی ہے۔ ہر وقت ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مجھے کچھ ہو جائے گا، بعض اوقات محسوس ہوتا ہے آنکھوں سے خون بہہ رہا ہے جس کی وجہ سے طبیعت زیادہ گھبراتی ہے۔ بچپن سے نفسیاتی مریضہ ہوں، کوئی ذرا سی بات کہہ دے تو دورہ پڑھ جاتا ہے، چیخنا چلّانا شروع کردیتی ہوں، شور کرتی ہوں، دوسروں کو تنگ کرتی ہوں پھر خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہوں۔ ڈاکٹروں کو دکھایا، اب بھی ایک ڈاکٹر کی مہنگی دوائیں کھارہی ہوں۔ ایک بات اور بتادوں وہ یہ کہ دو بار خودکشی کی کوشش بھی کی ہے، گھر والے فوراً ہسپتال لے گئے اور مجھے بچالیا گیا۔ میں حیران ہوں کہ اتنی بری حالت ہو جانے کے باوجود خدا نے میری زندگی کو محفوظ اور میرا ذہنی توازن بھی ٹھیک رکھا۔ (ع۔ راولپنڈی)
مشورہ:آپ کے رویے سے کئی ذہنی امراض کی علامات ظاہر ہورہی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ علاج ہورہا ہے۔ آپ کو اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر پوری طرح عمل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ان کے بتانے کے مطابق ادویات کا استعمال کریں، ساتھ میں یہ بھی محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ بیماری پر قابو ہورہا ہے۔ جب منفی سوچ کا احساس ہے تو اس کو مثبت میں بدلنے کی صلاحیت بھی ضرور ہوگی، اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خط کے آخری جملوں میں بہت حوصلہ ہے یعنی زندگی محفوظ اور ذہنی توازن ٹھیک ہونے کی بات کی گئی ہے۔ ایسی کیفیت کو زیادہ وقت محسوس کرنے کی کوشش کریں ۔
کیا یہ محبت ہےیا میرا پاگل پن
آج سے دو سال پہلے ہمارے گھر کے قریب ایک مکان تعمیر ہونا شروع ہوا۔ اس کام کی نگرانی کے لیے ایک شخص مقرر تھا، اس کی شکل ایک اداکار سے ملتی تھی، میں اسے اسی وجہ سے دیکھتی۔ اچانک اُس نے نوٹ کیا کہ یہ لڑکی مجھے دیکھتی ہے اور خود بھی میری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ جب وہ دیکھتا تو میں پیچھے ہٹ جاتی۔ اب اس کا ہر روز میری طرف دیکھنا معمول بن گیا ہے، میں بھی اس کو نہ دیکھتی تو بے چین رہتی۔ اب گھر تعمیر ہوچکا ہے، اس کا وہاں آنا جانا بہت کم ہے رات کو نیند نہیں آتی۔ میری عمر 17سال ہے کیا یہ محبت ہے، اگر نہیں تو اور کیا ہے۔(گ،ملتان)
مشورہ: یہ محبت نہیں بلکہ خواہشات کا غلبہ اور دین سے شدید دوری ہے۔ آپ نے خود اپنے لیے مشکل پیدا کرلی، یہ نادانی ہی کہی جائے گی۔ جہاں تک ڈیپریشن کی بات ہے تو یہ شدید اذیت ناک نفسیاتی مرض ہے، اس بیماری میں انسان معمولات زندگی بھی انجام دینے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ اپنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کریں اور اصلاح بھی کریں‘ دینی کتب کا مطالعہ کریں اور نماز پنج وقتہ ضرور ادا کریں، اگر کسی کی شکل آپ کی پسندیدہ شخصیت سے ملتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی بھی طرح کوئی تعلق قائم کرلیا جائے، اچھا تو کوئی بھی لگ سکتا ہے۔ انسان کواپنے جذبات پر قابو ہونا چاہیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز،سوچیں کیا شریعت نے آپ کو اس چیز کی اجازت دی ہے؟ ہرگزنہیں! جو لڑکیاں ان باتوں کا خیال نہیں رکھتیں، وہ خواہ مخواہ خود کو مشکلات کا شکار بنا ڈالتی ہیں اور بربادی ان کا مقدر ہوتی ہے۔
بگڑے دیور کی کہانی اور میری پریشانی
میرے دیور کی عمر 27سال ہے گزشتہ 7 سال سے اس کا رویہ بہت زیادہ بگڑا ہوا ہے۔گھر کی چیزیں جاکر بیچ آتا ہے، نت نئی فرمائشیں کرتا ہے، پوری نہ کرو تو برا بھلا کہتا ہے۔ ایسی کیفیت میں اس نے کورٹ میرج کرلی تھی لیکن اس کے بعد ذہنی طور پر اور زیادہ خراب ہوگیا۔ کسی بات سے روکا جائے تو چیختا چلّاتا ہے، میری ساس اس کے غم کو سینے سے لگائے جہان سے کوچ کرگئیں۔ بڑے بھائی نے اسے ہسپتال میں داخل کروادیا تو یہ وہاں بہت رویا اور وعدہ کیا کہ آئندہ کچھ غلط نہ کرے گا تو انہیں اس پر ترس آگیا۔ کیا ایسےمریض کی بات کا اعتبار کرنا چاہیے؟ (ن، کراچی)
مشورہ:آپ کے دیور کی شخصیت میں بگاڑ ذہنی مرض کے علاوہ غلط ماحول کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ چوری کرنا، اپنی بات منوانا اور کسی کا لحاظ نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ غلط قسم کے لڑکوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ ذہنی مریضوں کے ساتھ ہمدردی رکھنی چاہیے۔ علاج کے سلسلے میں کچھ اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس کے علاج کے سلسلے میں اپنے شوہر اور دیگر اہل خانہ کا ساتھ دیں، عموماً ذہنی مریضوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے حق میں کیا بہتر ہے لہٰذا ان کی ہر بات نہیں مانی جاسکتی۔
مرجاؤں گا مگر انڈیا ضرورجاؤں گا
ایک سال تین ماہ سے میرے بھائی کو انڈیا جانے کی لگی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کو صرف انڈیا جانا ہے۔ اس چکر میں اس نے سکول بھی چھوڑ دیا۔ کہتا ہے مر جائوں گا مگر انڈیا جائوں گا۔ہم لوگ اس کی وجہ سے بے حد پریشان ہیں، پتہ نہیں کیا وجہ ہے؟ (علی شان، سیالکوٹ)
مشورہ:موت کی دھمکی، سکول چھوڑ دینا اور ضد کرنا ایسی بات کرنا، جس کا کوئی مقصد بھی نظر نہ آتا ہو، یہ ظاہر کرتی ہے کہ بھائی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ عام طور پر بچے سکول جانا چھوڑتے ہیں تو اکثر والدین ان پر سختی کرتے ہیں، بعض مان لیتے ہیں کہ ان کو نہیں پڑھنا۔ ان حالات میں بچے کی ذہنی حالت کا جائزہ لینا اور اس کو باہر نفسیات سے ملوانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ وہ امریکا یا انگلینڈجانے کا بھی کہہ سکتا تھا۔ انڈیا جانے کی ضد ہوسکتا ہے اس لیے کررہا ہے کہ اس نے انڈین فلمیں یا ڈرامے وغیرہ دیکھے ہوں جن میں اس کو وہاں کے ماحول میں کوئی کشش نظر آئی ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، ضرورت ذہنی کیفیت میں بہتری لانے کی ہے۔ اس کی درست رہنمائی کی جائے اور یہ سمجھایا جائے کہ اس طرح ضد سے اس کا وقت اور والدین کا پیسہ دونوں ضائع ہوں گے۔
کچھ سمجھائیے!اعصاب پر قابو نہیں!
میری عمر 23سال ہے جب بھی لوگوں کے سامنے بات کرتا ہوں یا تقریر کرنے کا موقع ملتا ہے تو اعصاب پر قابو نہیں ہو پاتا، دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ کیا کبھی میں ٹھیک طرح گفتگو نہیں کر پائوں گا۔ (شہریار خواجہ‘اسلام آباد)
مشورہ:جب تک اپنے بارے میں منفی سوچتے رہیں گے، مثبت ردعمل سامنے نہ آئے گا۔ جو لوگ اچھی گفتگو کرتے ہیں آپ ان سے کسی بھی طرح کم نہیں، ایسا اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے البتہ کہیں تقریر کرنی ہو اور پہلے سے معلوم ہوتو اس کے لیے اچھی تیاری کی جاسکتی ہے۔ جتنی زیادہ مشق ہوگی، اتنے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں